چمکے دوری میں کچھ عکس نشانوں کے
تیری آنکھ میں خواب جمیل جہانوں کے
اترے آنکھ میں حرف سنہرے منظر کے
جاگے دل میں شوق بسیط اڑانوں کے
کھلے ہوئے دروازے شہر کی آنکھیں ہیں
جن میں بھید کئی مہجور زمانوں کے
کب بن باس کٹے اس شہر کے لوگوں کا
قفل کھلیں کب جانے بند مکانوں کے
ایک فصیل کھنچی ہے دل میں دوری کی
جس کے پار ہیں رستے درد خزانوں کے
وہ جو رات کو دن سے بدلتے رہتے تھے
مٹ گئے دل سے نقش ایسے ارمانوں کے
غزل
چمکے دوری میں کچھ عکس نشانوں کے
ستار سید