یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا
ہر روشنی کو شہر بدر کر دیا گیا
اپنے گھروں کے سکھ سے بھی روکش دکھائی دیں
لوگوں کو مبتلائے سفر کر دیا گیا
جینا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں رہا
جینے کو ایک کار ہنر کر دیا گیا
چہروں سے رنگ ہاتھ سے آئینے چھین کر
بے چہرگی کو رخت نظر کر دیا گیا
اب جسم و جاں پہ حق تصرف طلب کرے
ظالم کو اس قدر تو نڈر کر دیا گیا
درپئے تھے ہر شجر کے تعفن شعار لوگ
محروم خوشبوؤں سے نگر کر دیا گیا
وہ قحط غم پڑا ہے کہ اک ٹیس کے لئے
اہل کرم کا دست نگر کر دیا گیا
غزل
یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا
ستار سید