شکوۂ آب میں گم تھے جہت نشاں میرے
ہوا نے رکھ دیئے تہہ کر کے بادباں میرے
سحر کو ساتھ اڑا لے گئی صبا جیسے
یہ کس نے کر دیئے رستے دھواں دھواں میرے
ترے اشارۂ ابرو پہ رت بدلتی ہے
بہار ہے نہ تسلط میں ہے خزاں میرے
اترنے والے سفینوں میں چھید کرتے گئے
ڈبو گئے مجھے ساحل پہ مہرباں میرے
کھلا شگوفۂ غم شاخ عمر پر سیدؔ
مہک رہے ہیں سر حرف جسم و جاں میرے
غزل
شکوۂ آب میں گم تھے جہت نشاں میرے
ستار سید