ایسے لگے ہے نوکری مال حرام کے بغیر
جیسے ہو داغؔ کی غزل بادہ و جام کے بغیر
سرفراز شاہد
عوام الناس کو ایسے دبوچا ہے گرانی نے
کہ جیسے کیٹ کے پنجے میں کوئی ریٹ ہوتا ہے
سرفراز شاہد
بجٹ کی کئی سختیاں اور بھی ہیں
''ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں''
سرفراز شاہد
فقط رنگ ہی ان کا کالا نہیں ہے
اسی قسم کی خوبیاں اور بھی ہیں
سرفراز شاہد
ہم نے تو انہیں جامعہ سے نقد خریدا
پھر کس طرح جعلی ہوئیں اسناد ہماری
سرفراز شاہد
عید پر مسرور ہیں دونوں میاں بیوی بہت
اک خریداری سے پہلے اک خریداری کے بعد
سرفراز شاہد
اس دور کے مردوں کی جو کی شکل شماری
ثابت ہوا دنیا میں خواتین بہت ہیں
سرفراز شاہد
کوئی خوش ذوق ہی شاہدؔ یہ نکتہ جان سکتا ہے
کہ میرے شعر اور نخرے تمہارے ایک جیسے ہیں
سرفراز شاہد
کچھ مہ جبیں لباس کے فیشن کی دوڑ میں
پابندیٔ لباس سے آگے نکل گئے
سرفراز شاہد