EN हिंदी
منافع مشترک ہے اور خسارے ایک جیسے ہیں | شیح شیری
munafa mushtarak hai aur KHasare ek jaise hain

غزل

منافع مشترک ہے اور خسارے ایک جیسے ہیں

سرفراز شاہد

;

منافع مشترک ہے اور خسارے ایک جیسے ہیں
کہ ہم دونوں کی قسمت کے ستارے ایک جیسے ہیں

میں اک چھوٹا سا افسر ہوں وہ اک موٹا سا ''مل اونر''
مگر دونوں کے انکم گوشوارے ایک جیسے ہیں

اسے ضعف بصیرت اسے ضعف بصارت ہے
ہمارے دیدہ ور سارے کے سارے ایک جیسے ہیں

مٹن اور دال کی قیمت برابر ہو گئی جب سے
یقیں آیا کہ دونوں میں ''حرارے'' ایک جیسے ہیں

جہاں بھر کے سیاسی دنگلوں میں ہم نے دیکھا ہے
''انوکی'' اک سے اک اونچا ہے جھارے ایک جیسے ہیں

وہ تھانہ ہو شفا خانہ ہو یا پھر ڈاک خانہ ہو
رفاہ عام کے سارے ادارے ایک جیسے ہیں

سرور جاں فزا دیتی ہے آغوش وطن سب کو
کہ جیسے بھی ہوں بچے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں

بلا کا فرق ہے لندن کی گوری اور کالی میں
مگر دونوں کی آنکھوں میں اشارے ایک جیسے ہیں

ہر اک بیگم اگرچہ منفرد ہے اپنی سج دھج میں
مگر جتنے بھی شوہر ہیں بچارے ایک جیسے ہیں

کوئی خوش ذوق ہی شاہدؔ یہ نکتہ جان سکتا ہے
کہ میرے شعر اور نخرے تمہارے ایک جیسے ہیں

گماں ہوتا ہے شاہدؔ ریڈیو پر سن کے موسیقی
کہ پکے راگ اور نمکیں غرارے ایک جیسے ہیں