ایسے لگے ہے نوکری مال حرام کے بغیر
جیسے ہو داغؔ کی غزل بادہ و جام کے بغیر
ہو نہ سماج بیچ میں عشق ہو یوں اسپیڈ میں
لاری چلے بریک بن گھوڑا لگام کے بغیر
پیار کی ساری گفتگو اب وہ کرے ہے فون پر
اور پھرے ہے نامہ بر نام و پیام کے بغیر
بیوی کی ایک چپ سے ہے گھر کی فضا بجھی بجھی
جیسے کوئی مشاعرہ میرے کلام کے بغیر
شاہدؔ ہمارا شعر ہے اوڑھے ہوئی شگفتگی
ورنہ ہے تیغ بے اماں وہ بھی نیام کے بغیر
غزل
ایسے لگے ہے نوکری مال حرام کے بغیر
سرفراز شاہد