لبوں میں آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
سرفراز شاہد
مرغ پر فوراً جھپٹ دعوت میں ورنہ بعد میں
شوربہ اور گردنوں کی ہڈیاں رہ جائیں گی
سرفراز شاہد
راز و نیاز میں بھی اکڑ فوں نہیں گئی
وہ خط بھی لکھ رہا ہے تو چالان کی طرح
سرفراز شاہد
سارے شکوے دور ہو جائیں جو قدرت سونپ دے
میری دانائی تجھے اور تیری نادانی مجھے
سرفراز شاہد
شاہدؔ صاحب کہلاتے ہیں مسٹر بھی مولانا بھی
حضرت دو کرداروں والے ہیرا پھیری کرتے ہیں
سرفراز شاہد
سپیشلسٹ پین کلر دے تو کون سا؟
''سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے''
سرفراز شاہد
سرور جاں فزا دیتی ہے آغوش وطن سب کو
کہ جیسے بھی ہوں بچے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں
سرفراز شاہد