آہ کرتا ہوں تو آتے ہیں پسینے ان کو
نالہ کرتا ہوں تو راتوں کو وہ ڈر جاتے ہیں
سائل دہلوی
گماں کس پر کریں صوفی ادھر ہے اس طرف واعظ
خدا رکھے محلے میں سبھی اللہ والے ہیں
سائل دہلوی
ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے
سائل دہلوی
ہمیشہ خون دل رویا ہوں میں لیکن سلیقے سے
نہ قطرہ آستیں پر ہے نہ دھبا جیب و دامن پر
سائل دہلوی
جناب شیخ مے خانہ میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی
سائل دہلوی
جھڑی ایسی لگا دی ہے مرے اشکوں کی بارش نے
دبا رکھا ہے بھادوں کو بھلا رکھا ہے ساون کو
سائل دہلوی
خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا
سائل دہلوی
کھل گئی شمع تری ساری کرامات جمال
دیکھ پروانے کدھر کھول کے پر جاتے ہیں
سائل دہلوی
معلوم نہیں کس سے کہانی مری سن لی
بھاتا ہی نہیں اب انہیں افسانہ کسی کا
سائل دہلوی