اڑا سکتا نہیں کوئی مرے انداز شیون کو
بمشکل کچھ سکھایا ہے نوا سنجان گلشن کو
گریباں چاک کرنے کا سبب وحشی نے فرمایا
کہ اس کے تار لے کر میں سیوں گا چاک دامن کو
بہار آتے ہی بٹتی ہیں یہ چیزیں قید خانوں میں
سلاسل ہاتھ کو پاؤں کو بیڑی طوق گردن کو
جھڑی ایسی لگا دی ہے مرے اشکوں کی بارش نے
دبا رکھا ہے بھادوں کو بھلا رکھا ہے ساون کو
دل مرحوم کی میت اجازت دو تو رکھ دیں ہم
ترے تلوے برابر ہی زمیں کافی ہے مدفن کو
اجازت دو تو ساری انجمن کے دل ہلا دوں میں
سمجھ رکھا ہے تم نے ہیچ تاثیرات شیون کو
سلوک پیر مے خانہ کی اے ساقی تلافی کیا
بجز اس کے دعائیں دو اسے پھیلا کے دامن کو

غزل
اڑا سکتا نہیں کوئی مرے انداز شیون کو
سائل دہلوی