امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
تو یہ سمجھو کہ بنیاد خربات مغاں رکھ دی
کہوں کیا پیش زاہد کیوں شراب ارغواں رکھ دی
مری توفیق جو کچھ تھی برائے میہماں رکھ دی
یہاں تک تو نبھایا میں نے ترک مے پرستی کو
کہ پینے کو اٹھا لی اور لیں انگڑائیاں رکھ دی
جناب شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی
تمہیں پروا نہ ہو مجھ کو تو جنس دل کی پروا ہے
کہاں ڈھونڈوں کہاں پھینکی کہاں دیکھوں کہاں رکھ دی
لگا لیں گے اسے اہل وفا بے شبہ آنکھوں سے
اگر پائے عدو پر اس نے خاک آستاں رکھ دی
ادھر پر نوچ کر ڈالا قفس میں اف رے بیدردی
ادھر اک جلتی چنگاری میان آشیاں رکھ دی
ضمیر اس کا ڈبو دے گا اسے آب خجالت میں
وفاداری کی تہمت غیر پر کیوں بد گماں رکھ دی
ہوس مستی کی سائلؔ کو نہیں کافی ہے تھوڑی سی
پیالے میں اگر پس خوردۂ پیر مغاں رکھ دی
غزل
امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
سائل دہلوی