جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
کہ تنکے جمع کریں پھر نہ آشیانے کے
سبب یہ ہوتے ہیں ہر صبح باغ جانے کے
سبق پڑھاتے ہیں کلیوں کو مسکرانے کے
ہزاروں عشق جنوں خیز کے بنے قصے
ورق ہوے جو پریشاں مرے فسانے کے
ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے
قرار جلوہ نمائی ہوا ہے فردا پر
یہ طول دیکھیے اک مختصر زمانے کے
نہ پھول مرغ چمن اپنی خوشنوائی پر
جواب ہیں مرے نالے ترے ترانے کے
اسی کی خاک ہے ماتھے کی زیب بندہ نواز
جبیں پہ نقش پڑے ہیں جس آستانے کے
غزل
جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
سائل دہلوی