EN हिंदी
خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا | شیح شیری
KHizan ka jo gulshan se paD jae pala

غزل

خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا

سائل دہلوی

;

خزاں کا جو گلشن سے پڑ جائے پالا
تو صحن چمن میں نہ گل ہو نہ لالہ

لیا تیرے عاشق نے برسوں سنبھالا
بہت کر گیا مرنے والا کسالا

پئے فاتحہ ہاتھ اٹھاوے گا کوئی
سر تربت بیکساں آنے والا

اسی گریہ کے تار سے میری آنکھیں
بنا دیں گی ندی بہا دیں گی نالہ

بٹھا کر تمہیں شمع کے پاس دیکھا
تم آنکھوں کی پتلی وہ گھر کا اجالا

خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا

دیا حکم ساقی کو پیر مغاں نے
پئے محتسب جام و مینا اٹھا لا

یہ سنتے ہی مے خوار بولے خوشی سے
ہمیں سا ہے یہ نیک اللہ والا

حقیقت میں سائلؔ نے ذوق ادب سے
جہاں تک اچھالا گیا نام اچھالا