اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے
سموم بن گئی باد صبا بھی میرے لیے
محسن زیدی
بچھڑنے والوں میں ہم جس سے آشنا کم تھے
نہ جانے دل نے اسے یاد کیوں زیادہ کیا
محسن زیدی
دور رہنا تھا جب اس کو محسنؔ
میرے نزدیک وہ آیا کیوں تھا
محسن زیدی
ہم نے بھی دیکھی ہے دنیا محسنؔ
ہے کدھر کس کی نظر جانتے ہیں
محسن زیدی
ہر شخص یہاں گنبد بے در کی طرح ہے
آواز پہ آواز دو سنتا نہیں کوئی
محسن زیدی
جان کر چپ ہیں وگرنہ ہم بھی
بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں
محسن زیدی
جیسے دو ملکوں کو اک سرحد الگ کرتی ہوئی
وقت نے خط ایسا کھینچا میرے اس کے درمیاں
محسن زیدی
کوئی اکیلا تو میں سادگی پسند نہ تھا
پسند اس نے بھی رنگوں میں رنگ سادہ کیا
محسن زیدی
کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے
کسی کے ساتھ دریا جا رہا ہے
محسن زیدی