کوئی دیوار نہ در جانتے ہیں
ہم اسی دشت کو گھر جانتے ہیں
جان کر چپ ہیں وگرنہ ہم بھی
بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں
یہ مہم ہدیۂ سر مانگتی ہے
اس میں ہے جاں کا خطر جانتے ہیں
لد گئی شاخ لہو پھولوں سے
آئیں گے اب کے ثمر جانتے ہیں
جان جانی ہے تو جائے گی ضرور
ہم دعاؤں کا اثر جانتے ہیں
کون ہے تابع مہمل کس کا
کس کا ہے کس پہ اثر جانتے ہیں
لوگ اسے مصلحتاً کچھ نہ کہیں
اس کی اوقات مگر جانتے ہیں
رات کس کس کے اڑے ہیں پرزے
شہر میں کیا ہے خبر جانتے ہیں
رات کاٹے نہیں کٹتی ہے مگر
رات ہے تا بہ سحر جانتے ہیں
ہم نے بھی دیکھی ہے دنیا محسنؔ
ہے کدھر کس کی نظر جانتے ہیں
غزل
کوئی دیوار نہ در جانتے ہیں
محسن زیدی