دور تک سبزہ کہیں ہے اور نہ کوئی سائباں
زیر پا تپتی زمیں ہے سر پہ جلتا آسماں
جیسے دو ملکوں کو اک سرحد الگ کرتی ہوئی
وقت نے خط ایسا کھینچا میرے اس کے درمیاں
اب کے سیلاب بلا سب کچھ بہا کر لے گیا
اب نہ خوابوں کے جزیرے ہیں نہ دل کی کشتیاں
لطف ان کا اب ہوا تو ہے مگر کچھ اس طرح
جیسے صحرا سے گزر جائے کوئی ابر رواں
منحصر ہے ایسی اک بنیاد پر اس کا یقیں
جس طرح دوش ہوا پر کوئی تنکوں کا مکاں
بے زبانوں سے خموشی کا گلہ کیسا کہ جب
سو گئے لفظوں کی چادر تان کر اہل زباں
یہ سفر کیسا ہے محسنؔ جتنا بڑھتے جائیے
بڑھتی جائیں اتنی ہی منزل بہ منزل دوریاں
غزل
دور تک سبزہ کہیں ہے اور نہ کوئی سائباں
محسن زیدی