کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے
کسی کے ساتھ دریا جا رہا ہے
یہ بستی بھی نہ کیا راس آئی اس کو
اٹھا کر کیوں وہ خیمہ جا رہا ہے
کہیں اک بوند بھی برسا نہ پانی
کہیں بادل برستا جا رہا ہے
دیے ایک ایک کر کے بجھ رہے ہیں
اندھیرا ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے
پہاڑ اوپر تو نیچے کھائیاں ہیں
جہاں سے ہو کے رستہ جا رہا ہے
وہ واپس لے رہا ہے قرض اپنا
ہمارے پاس سے کیا جا رہا ہے
غزل
کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے
محسن زیدی