EN हिंदी
کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے | شیح شیری
koi kashti mein tanha ja raha hai

غزل

کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے

محسن زیدی

;

کوئی کشتی میں تنہا جا رہا ہے
کسی کے ساتھ دریا جا رہا ہے

یہ بستی بھی نہ کیا راس آئی اس کو
اٹھا کر کیوں وہ خیمہ جا رہا ہے

کہیں اک بوند بھی برسا نہ پانی
کہیں بادل برستا جا رہا ہے

دیے ایک ایک کر کے بجھ رہے ہیں
اندھیرا ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے

پہاڑ اوپر تو نیچے کھائیاں ہیں
جہاں سے ہو کے رستہ جا رہا ہے

وہ واپس لے رہا ہے قرض اپنا
ہمارے پاس سے کیا جا رہا ہے