جانا ہے اسی سمت کہ چارہ نہیں کوئی
جس سمت کو رستہ بھی نکلتا نہیں کوئی
بس دل کا ہے سودا کوئی بازی نہیں سر کی
تھوڑا سا ہے نقصان زیادہ نہیں کوئی
منجدھار میں کشتی کا بدلنا نہیں منظور
ایسی مجھے ساحل کی تمنا نہیں کوئی
ہر شخص یہاں گنبد بے در کی طرح ہے
آواز پہ آواز دو سنتا نہیں کوئی
ہم سینہ سپر آ گئے میدان وغا میں
اب کیوں صف اعدا سے نکلتا نہیں کوئی
مانا کہ برا ہے جو کم آمیز ہوں اتنا
یہ تیرا تغافل بھی تو اچھا نہیں کوئی
وہ شعبدہ گر ہی نہ رہا کھیل ہوا ختم
ہونے کو بس اب اور تماشا نہیں کوئی
اک نقد ہنر ہے کہ نہیں جس کی کوئی قدر
پاس اس کے سوا اور اثاثہ نہیں کوئی
پامالی گلشن کی یہ تصویر ہے محسنؔ
شادابی گلشن کا یہ نقشہ نہیں کوئی
غزل
جانا ہے اسی سمت کہ چارہ نہیں کوئی
محسن زیدی