آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو
ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں
منظر لکھنوی
اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں
گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں
منظر لکھنوی
عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا
جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزا تھا
منظر لکھنوی
اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں
بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا
منظر لکھنوی
اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں
پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں
منظر لکھنوی
بہکی بہکی نگۂ ناز خدا خیر کرے
حسن میں عشق کے انداز خدا خیر کرے
منظر لکھنوی
بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے
منظر لکھنوی
برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں
بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ
منظر لکھنوی
چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے
ذرا ہٹ جائیے گا درمیاں سے
منظر لکھنوی