دنیا کو دین دین کو دنیا کریں گے ہم
تیرے بنیں گے ہم تجھے اپنا کریں گے ہم
منظر لکھنوی
آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو
ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں
منظر لکھنوی
ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے
عید کا چاند چراغ شب تنہائی ہے
منظر لکھنوی
غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے
درد کی درد سے دوا کیجے
منظر لکھنوی
گھر کو چھوڑا ہے خدا جانے کہاں جانے کو
اب سمجھ لیجئے ٹوٹا ہوا تارا مجھ کو
منظر لکھنوی
گلوں سے کھیل رہے ہیں نسیم کے جھونکے
قفس میں بیٹھا ہوا ہاتھ مل رہا ہوں میں
منظر لکھنوی
غصہ قاتل کا نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے
ایک سر ہے کہ وہ ہر روز قلم ہوتا ہے
منظر لکھنوی
ہنسی آنے کی بات ہے ہنس رہا ہوں
مجھے لوگ دیوانہ فرما رہے ہیں
منظر لکھنوی
ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل
اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو
منظر لکھنوی