وحشت وحشت تری تفریح کا ساماں ہے ابھی
کہ گریباں کا مرے نام گریباں ہے ابھی
منظر لکھنوی
وہ تو کہئے آپ کی الفت میں دل بہلا رہا
ورنہ دنیا چار دن بھی رہنے کے قابل نہ تھی
منظر لکھنوی
یہ انسان نادیدہ الفت کا مارا
خدا جانے کس کس کو سجدہ کرے گا
منظر لکھنوی
ظلم پر ظلم آ گئے غالب
آبلے آبلوں کو چھوڑ گئے
منظر لکھنوی
ایک موسیٰ تھے کہ ان کا ذکر ہر محفل میں ہے
اور اک میں ہوں کہ اب تک میرے دل کی دل میں ہے
منظر لکھنوی
اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں
گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں
منظر لکھنوی
عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا
جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزا تھا
منظر لکھنوی
اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں
بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا
منظر لکھنوی
اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں
پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں
منظر لکھنوی