مرا بیڑی پہننا تھا کہ دنیا کی ہوا بدلی
زمانے کی بہاریں پھٹ پڑیں آ کے گلستاں پر
منظر لکھنوی
مرگ عاشق پہ فرشتہ موت کا بدنام تھا
وہ ہنسی روکے ہوئے بیٹھا تھا جس کا کام تھا
منظر لکھنوی
میں تنکے چنتا پھرتا ہوں صیاد تیلیاں
تیار ہو رہا ہے قفس آشیاں کے ساتھ
منظر لکھنوی
مانگنے پر کیا نہ دے گا طاقت صبر و سکون
جس نے بے مانگے عطا کر دی پریشانی مجھے
منظر لکھنوی
کچھ ابر کو بھی ضد ہے منظرؔ مری توبہ سے
جب عہد کیا میں نے گھنگھور گھٹا چھائی
منظر لکھنوی
کسی آنکھ میں نیند آئے تو جانوں
مرا قصۂ غم کہانی نہیں ہے
منظر لکھنوی
کس کا کوچہ ہے آ گیا ہوں کہاں
یاں تو کچھ نیند آئی جاتی ہے
منظر لکھنوی
کیجیے کیوں مردہ ارمانوں سے چھیڑ
سونے والوں کو تو سونے دیجیے
منظر لکھنوی
کھیلنا آگ کے شعلوں سے کچھ آسان نہیں
بس یہ اک بات خدا داد ہے پروانے میں
منظر لکھنوی