بہکی بہکی نگۂ ناز خدا خیر کرے
حسن میں عشق کے انداز خدا خیر کرے
منظر لکھنوی
بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے
صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے
منظر لکھنوی
برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں
بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ
منظر لکھنوی
چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے
ذرا ہٹ جائیے گا درمیاں سے
منظر لکھنوی
چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کانٹے
بہار ہائے ہمارے لئے بہار نہیں
منظر لکھنوی
دامن و جیب و گریباں کا نہیں کوئی ملال
غم یہ ہے دست جنوں کل کے لئے کام نہیں
منظر لکھنوی
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے
منظر لکھنوی
دو گھڑی دل کے بہلنے کا سہارا بھی گیا
لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے
منظر لکھنوی
دو گھڑی دل کے بہلانے کا سہارا بھی گیا
لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے
منظر لکھنوی