آئنہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں مگر
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
my physical external form, the mirror does reflect
but it does not revel my innermost aspect
کرشن بہاری نور
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئنہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
in golden frame you may display
untruth the mirror will not say
کرشن بہاری نور
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد
کرشن بہاری نور
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
کرشن بہاری نور
کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے
کرشن بہاری نور
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے
کرشن بہاری نور
میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے
کرشن بہاری نور
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
کرشن بہاری نور
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت
کرشن بہاری نور