EN हिंदी
کرامت علی کرامت شیاری | شیح شیری

کرامت علی کرامت شیر

13 شیر

چبھ رہا تھا دل میں ہر دم کر رہا تھا بے قرار
اک اذیت ناک پہلو جو مری راحت میں تھا

کرامت علی کرامت




غم فراق کو سینے سے لگ کے سونے دو
شب طویل کی ہوگی سحر کبھی نہ کبھی

کرامت علی کرامت




غم ہستی بھلا کب معتبر ہو
محبت میں نہ جب تک آنکھ تر ہو

کرامت علی کرامت




ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے
کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا

کرامت علی کرامت




کوئی زمین ہے تو کوئی آسمان ہے
ہر شخص اپنی ذات میں اک داستان ہے

کرامت علی کرامت




میں لفظ لفظ میں تجھ کو تلاش کرتا ہوں
سوال میں نہیں آتا نہ آ جواب میں آ

کرامت علی کرامت




میں شعاع ذات کے سینے میں گونجا ہوں کبھی
اور کرامتؔ میں کبھی لمحوں کے خوابوں میں رہا

کرامت علی کرامت




منزل پہ بھی پہنچ کے میسر نہیں سکوں
مجبور اس قدر ہیں شعور سفر سے ہم

کرامت علی کرامت




پتوار گر گئی تھی سمندر کی گود میں
دل کا سفینہ پھر بھی لہو کے سفر میں تھا

کرامت علی کرامت