یہ کون کہتا ہے تو حلقۂ نقاب میں آ؟
شعور رنگ وفا بن کے آفتاب میں آ
فضا کو تو نے معطر کیا تو کیا حاصل؟
مزا تو جب ہے کہ پھر لوٹ کر گلاب میں آ
میں لفظ لفظ میں تجھ کو تلاش کرتا ہوں
سوال میں نہیں آتا نہ آ جواب میں آ
گھٹا گھٹا سا نہ رہ تجربوں کے محبس میں
صریر وقت کی راہوں سے تو کتاب میں آ
جلا کے طاق عدم میں مسرتوں کے چراغ
تو آرزو کے چمکتے ہوئے سراب میں آ
فلک کی حد سے پرے ہے تری اڑان تو کیا؟
مگر کبھی کبھی دھرتی کے اس عذاب میں آ
انانیت کا نشہ بن کے چھا نہ محفل پر
اترنا ہے تو اتر کر شراب ناب میں آ
کرامتؔ آج زمانہ جو دے رہا ہے دغا
ذرا سی بات پہ ہرگز نہ اضطراب میں آ
غزل
یہ کون کہتا ہے تو حلقۂ نقاب میں آ؟
کرامت علی کرامت