آج کیا جانے کیا ہے ہونے کو
جی بہت چاہتا ہے رونے کو
جگر بریلوی
آستاں بھی کوئی مل جائے گا اے ذوق نیاز
سر سلامت ہے تو سجدہ بھی ادا ہو جائے گا
جگر بریلوی
درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے
جگر بریلوی
ہم اور اٹھائیں گے احسان جاں نوازی کے
ہمیں تو سانس بھی لینا گراں گزرتا ہے
جگر بریلوی
عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجئے
جگر بریلوی
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
عشق میں قدر خستگی کی امید
اے جگرؔ ہوش کی دوا کیجئے
جگر بریلوی
نہ مٹ سکا نہ مٹے گا کبھی نشاں میرا
لیا اجل نے کئی بار امتحاں میرا
جگر بریلوی
نہیں علاج غم ہجر یار کیا کیجے
تڑپ رہا ہے دل بے قرار کیا کیجے
جگر بریلوی