EN हिंदी
جلالؔ لکھنوی شیاری | شیح شیری

جلالؔ لکھنوی شیر

9 شیر

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو
پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا

جلالؔ لکھنوی




اک رات دل جلوں کو یہ عیش وصال دے
پھر چاہے آسمان جہنم میں ڈال دے

just one night give these deprived the joy of company
thereafter if you wish merge paradise and purgatory

جلالؔ لکھنوی




عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی

جلالؔ لکھنوی




جلالؔ عہد جوانی ہے دو گے دل سو بار
ابھی کی توبہ نہیں اعتبار کے قابل

جلالؔ لکھنوی




جس نے کچھ احساں کیا اک بوجھ سر پر رکھ دیا
سر سے تنکا کیا اتارا سر پہ چھپر رکھ دیا

anyone who did a favour placed a burden on my head
removed a straw from over me, and placed a mountain instead

جلالؔ لکھنوی




نہ ہو برہم جو بوسہ بے اجازت لے لیا میں نے
چلو جانے دو بیتابی میں ایسا ہو ہی جاتا ہے

جلالؔ لکھنوی




نہ خوف آہ بتوں کو نہ ڈر ہے نالوں کا
بڑا کلیجہ ہے ان دل دکھانے والوں کا

unafraid of soullful sighs, undaunted by the cries
these who break peoples hearts,

جلالؔ لکھنوی




پہنچے نہ وہاں تک یہ دعا مانگ رہا ہوں
قاصد کو ادھر بھیج کے دھیان آئے ہے کیا کیا

جلالؔ لکھنوی




وعدہ کیوں بار بار کرتے ہو
خود کو بے اعتبار کرتے ہو

جلالؔ لکھنوی