EN हिंदी
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا | شیح شیری
wo dil nasib hua jis ko dagh bhi na mila

غزل

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

جلالؔ لکھنوی

;

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو
پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا

چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں
شب فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا

خبر کو یار کی بھیجا تھا گم ہوئے ایسے
حواس رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا

جلالؔ باغ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا