EN हिंदी
عفت زریں شیاری | شیح شیری

عفت زریں شیر

7 شیر

اگر وہ چاند کی بستی کا رہنے والا تھا
تو اپنے ساتھ ستاروں کا قافلہ رکھتا

عفت زریں




دیکھ کر انسان کی بیچارگی
شام سے پہلے پرندے سو گئے

عفت زریں




کون پہچانے گا زریںؔ مجھ کو اتنی بھیڑ میں
میرے چہرے سے وہ اپنی ہر نشانی لے گیا

عفت زریں




پتھر کے جسم موم کے چہرے دھواں دھواں
کس شہر میں اڑا کے ہوا لے گئی مجھے

عفت زریں




وہ مل گیا تو بچھڑنا پڑے گا پھر زریںؔ
اسی خیال سے ہم راستے بدلتے رہے

عفت زریں




وہ مجھ کو بھول چکا اب یقین ہے ورنہ
وفا نہیں تو جفاؤں کا سلسلہ رکھتا

عفت زریں




ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے

عفت زریں