EN हिंदी
خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا | شیح شیری
KHwab aankhon se zaban se har kahani le gaya

غزل

خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا

عفت زریں

;

خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا
مختصر یہ ہے وہ میری زندگانی لے گیا

پھول سے موسم کی برساتیں ہواؤں کی مہک
اب کے موسم کی وہ سب شامیں سہانی لے گیا

دے گیا مجھ کو سرابوں کا سکوت مستقل
میرے اشکوں سے وہ دریا کی روانی لے گیا

خاک اب اڑنے لگی میدان صحرا ہو گئے
ریت کا طوفان دریاؤں سے پانی لے گیا

کون پہچانے گا زریںؔ مجھ کو اتنی بھیڑ میں
میرے چہرے سے وہ اپنی ہر نشانی لے گیا