خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا
مختصر یہ ہے وہ میری زندگانی لے گیا
پھول سے موسم کی برساتیں ہواؤں کی مہک
اب کے موسم کی وہ سب شامیں سہانی لے گیا
دے گیا مجھ کو سرابوں کا سکوت مستقل
میرے اشکوں سے وہ دریا کی روانی لے گیا
خاک اب اڑنے لگی میدان صحرا ہو گئے
ریت کا طوفان دریاؤں سے پانی لے گیا
کون پہچانے گا زریںؔ مجھ کو اتنی بھیڑ میں
میرے چہرے سے وہ اپنی ہر نشانی لے گیا
غزل
خواب آنکھوں سے زباں سے ہر کہانی لے گیا
عفت زریں