اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا
تو درمیاں نہ مقدر کا فیصلہ رکھتا
وہ مجھ کو بھول چکا اب یقین ہے ورنہ
وفا نہیں تو جفاؤں کا سلسلہ رکھتا
بھٹک رہے ہیں مسافر تو راستے گم ہیں
اندھیری رات میں دیپک کوئی جلا رکھتا
مہک مہک کے بکھرتی ہیں اس کے آنگن میں
وہ اپنے گھر کا دریچہ اگر کھلا رکھتا
اگر وہ چاند کی بستی کا رہنے والا تھا
تو اپنے ساتھ ستاروں کا قافلہ رکھتا
جسے خبر نہیں خود اپنی ذات کی زریںؔ
وہ دوسروں کا بھلا کس طرح پتا رکھتا
غزل
اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا
عفت زریں