ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے
دور تک ساحل پہ دل کے آبلوں کا عکس تھا
کشتیاں شعلوں کی دریا موم کے بہتے رہے
کیسے پہنچے منزلوں تک وحشتوں کے قافلے
ہم سرابوں سے سفر کی داستاں کہتے رہے
آنے والے موسموں کو تازگی ملتی گئی
اپنی فصل آرزو کو ہم خزاں کہتے رہے
کیسے مٹ پائیں گی زریںؔ یہ حدیں افکار کی
ٹوٹ کر دل کے کنارے دور تک بہتے رہے
غزل
ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
عفت زریں