EN हिंदी
ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے | شیح شیری
zehn o dil ke fasle the hum jinhen sahte rahe

غزل

ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے

عفت زریں

;

ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے

دور تک ساحل پہ دل کے آبلوں کا عکس تھا
کشتیاں شعلوں کی دریا موم کے بہتے رہے

کیسے پہنچے منزلوں تک وحشتوں کے قافلے
ہم سرابوں سے سفر کی داستاں کہتے رہے

آنے والے موسموں کو تازگی ملتی گئی
اپنی فصل آرزو کو ہم خزاں کہتے رہے

کیسے مٹ پائیں گی زریںؔ یہ حدیں افکار کی
ٹوٹ کر دل کے کنارے دور تک بہتے رہے