منزلیں آئیں تو رستے کھو گئے
آبگینے تھے کہ پتھر ہو گئے
بے گناہی ظلمتوں میں قید تھی
داغ پھر کس کے سمندر دھو گئے
عمر بھر کاٹیں گے فصلیں خون کی
زخم دل میں بیج ایسا بو گئے
دیکھ کر انسان کی بیچارگی
شام سے پہلے پرندے سو گئے
ان گنت یادیں میرے ہم راہ تھیں
ہم ہی زریںؔ درمیاں میں کھو گئے
غزل
منزلیں آئیں تو رستے کھو گئے
عفت زریں