EN हिंदी
حنیف ترین شیاری | شیح شیری

حنیف ترین شیر

7 شیر

بستی کے حساس دلوں کو چبھتا ہے
سناٹا جب ساری رات نہیں ہوتا

حنیف ترین




ہر زخم کہنہ وقت کے مرہم نے بھر دیا
وہ درد بھی مٹا جو خوشی کی اساس تھا

حنیف ترین




جن کا یقین راہ سکوں کی اساس ہے
وہ بھی گمان دشت میں مجھ کو پھنسے لگے

حنیف ترین




محفل میں پھول خوشیوں کے جو بانٹتا رہا
تنہائی میں ملا تو بہت ہی اداس تھا

حنیف ترین




پانی نے جسے دھوپ کی مٹی سے بنایا
وہ دائرہ ربط بگڑنے کے لیے تھا

حنیف ترین




ریت پر جلتے ہوئے دیکھ سرابوں کے چراغ
اپنے بکھراؤ میں وہ اور سنور جاتا ہے

حنیف ترین




رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ہیں
جب بھی اپنا سایہ ساتھ نہیں ہوتا

حنیف ترین