گردش کی رقابت سے جھگڑے کے لیے تھا
جو عہد مرا تتلی پکڑنے کے لیے تھا
جس کے لیے صدیاں کئی تاوان میں دی ہیں
وہ لمحہ تو مٹی میں جکڑنے کے لیے تھا
حالات نے کی جان کے جب دست درازی
ہر صلح کا پہلو ہی جھگڑنے کے لیے تھا
منہ زوریاں کیوں مجھ سے سزا وار تھیں اس کو
پھیلاؤ جہاں اس کا سکڑنے کے لیے تھا
قربان تھیں بالیدگیاں نخل طلب پر
کیا جوش نمو آپ اکھڑنے کے لیے تھا
پانی نے جسے دھوپ کی مٹی سے بنایا
وہ دائرہ ربط بگڑنے کے لیے تھا
غزل
گردش کی رقابت سے جھگڑے کے لیے تھا
حنیف ترین