EN हिंदी
دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے | شیح شیری
dil giran-bari-e-wahshat mein jidhar jata hai

غزل

دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے

حنیف ترین

;

دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے
شب مرحوم کے خوابوں سا بکھر جاتا ہے

کوئی پیمان وفا صبر سے بھر جاتا ہے
چار و ناچار کی دہشت میں گزر جاتا ہے

دھانی آوازوں کے سر تال میں بہتے بہتے
رقص صحرائی کے وہ بن میں اتر جاتا ہے

ریت پر جلتے ہوئے دیکھ سرابوں کے چراغ
اپنے بکھراؤ میں وہ اور سنور جاتا ہے