دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے
شب مرحوم کے خوابوں سا بکھر جاتا ہے
کوئی پیمان وفا صبر سے بھر جاتا ہے
چار و ناچار کی دہشت میں گزر جاتا ہے
دھانی آوازوں کے سر تال میں بہتے بہتے
رقص صحرائی کے وہ بن میں اتر جاتا ہے
ریت پر جلتے ہوئے دیکھ سرابوں کے چراغ
اپنے بکھراؤ میں وہ اور سنور جاتا ہے
غزل
دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے
حنیف ترین