احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا
شاید وہ اس گھڑی بھی مرے آس پاس تھا
محفل میں پھول خوشیوں کے جو بانٹتا رہا
تنہائی میں ملا تو بہت ہی اداس تھا
ہر زخم کہنہ وقت کے مرہم نے بھر دیا
وہ درد بھی مٹا جو خوشی کی اساس تھا
انگڑائی لی سحر نے تو لمحے چہک اٹھے
جنگل میں ورنہ رات کے خوف و ہراس تھا
سورج پہ وقت کا جو گہن لگ گیا حنیفؔ
دیکھا تو مجھ سے سایہ مرا نا شناس تھا

غزل
احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا
حنیف ترین