EN हिंदी
احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا | شیح شیری
ehsas-e-na-rasai se jis dam udas tha

غزل

احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا

حنیف ترین

;

احساس نا رسائی سے جس دم اداس تھا
شاید وہ اس گھڑی بھی مرے آس پاس تھا

محفل میں پھول خوشیوں کے جو بانٹتا رہا
تنہائی میں ملا تو بہت ہی اداس تھا

ہر زخم کہنہ وقت کے مرہم نے بھر دیا
وہ درد بھی مٹا جو خوشی کی اساس تھا

انگڑائی لی سحر نے تو لمحے چہک اٹھے
جنگل میں ورنہ رات کے خوف و ہراس تھا

سورج پہ وقت کا جو گہن لگ گیا حنیفؔ
دیکھا تو مجھ سے سایہ مرا نا شناس تھا