EN हिंदी
حیدر علی جعفری شیاری | شیح شیری

حیدر علی جعفری شیر

7 شیر

آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے
زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

حیدر علی جعفری




بھلا نہ پایا اسے جس کو بھول جانا تھا
وفاؤں سے مرا رشتہ بہت پرانا تھا

حیدر علی جعفری




کھینچ دیتا میں زمانے پہ محبت کے نقوش
میرے قبضے میں اگر خامۂ شہ پر ہوتا

حیدر علی جعفری




خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا

حیدر علی جعفری




کس کی صدا فضاؤں میں گونجی ہے چار سو
کس نے مجھے پکارا ہے بچپن کے نام سے

حیدر علی جعفری




کیا ضروری ہے جوئے شیر کی بات
کیوں نہ گنگ و جمن کی بات کریں

حیدر علی جعفری




سبھی تو دوست ہیں کیوں شک عبث ہوا مجھ کو
کسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

حیدر علی جعفری