ارتکاب جرم شر کی بات ہے
اور بری ہونا ہنر کی بات ہے
اک کہانی ہے کہ صدیوں پر محیط
سوچنے میں دوپہر کی بات ہے
آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے
زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے
ایک شعلہ سا لپک کر رہ گیا
یہ حیات مختصر کی بات ہے
ناصحا گر ہو سکے منزل پہ مل
زندگی تو رہگزر کی بات ہے
شادی و غم پر کریں کیا تبصرہ
تیرے میرے سب کے گھر کی بات ہے
راستے تو ہیں مگر منزل نہیں
کیا ہمارے راہ بر کی بات ہے
اب تو دوکانوں پہ بکتی ہے وفا
دوستو افراط زر کی بات ہے
بال و پر ہوتے تو کیوں ہوتے اسیر
قید میں کیوں بال و پر کی بات ہے
مطمئن کوئی نہیں حالات سے
شام کے لب پر سحر کی بات ہے
ہر قوی کو ہے وہاں جانے کا حق
دشت کی اور بحر و بر کی بات ہے
مردنی زائل ہو یا باقی رہے
یہ ترے حسن نظر کی بات ہے
غزل
ارتکاب جرم شر کی بات ہے
حیدر علی جعفری