EN हिंदी
متاع درد کا خوگر مری تلاش میں ہے | شیح شیری
mata-e-dard ka KHugar meri talash mein hai

غزل

متاع درد کا خوگر مری تلاش میں ہے

حیدر علی جعفری

;

متاع درد کا خوگر مری تلاش میں ہے
کسی کا بھیجا پیمبر مری تلاش میں ہے

ہوں میں ہی نقطۂ آغاز اختتام حصار
ہر اک حصار کا محور مری تلاش میں ہے

ملی ہے اوج خودی کو یقین محکم سے
سنا ہے مرضیٔ داور مری تلاش میں ہے

وہ ایک سعی جسے کہتے ہیں ہم سبھی ادراک
وہ میرے جسم کے اندر مری تلاش میں ہے

سبھی تو دوست ہیں کیوں شک عبث ہوا مجھ کو
کسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

مرے خدا میں ہوں تجھ سے پناہ کا طالب
مرے گناہوں کا لشکر مری تلاش میں ہے

مرے ہی لمس سے غنچوں نے پائی شادابی
چمن میں کھلتا گل تر مری تلاش میں ہے

کہیں سے سن لیا ہے میری پیاس کا چرچا
تبھی سے پیاسا سمندر مری تلاش میں ہے

لگا ہے سوچنے عہد رواں کا مرحبؔ بھی
بچوں گا کس طرح حیدرؔ مری تلاش میں ہے