نہ سر چھپانے کو گھر تھا نہ آب و دانہ تھا
زمانے بھر کی نگاہوں کا میں نشانہ تھا
بھلا نہ پایا اسے جس کو بھول جانا تھا
وفاؤں سے مرا رشتہ بہت پرانا تھا
جو عکس غیر کی تابش میں ڈھونڈتا تھا جلا
اس آئینے کو بکھرنا تھا ٹوٹ جانا تھا
دریچے ماضی کے کھلنے لگے تو یاد آیا
یہیں کہیں کسی ڈالی پہ آشیانہ تھا
صلے میں کیا مجھے ملتا جو اور رک جاتا
ترے خطوط کو اک روز تو جلانا تھا
جہاں پہ طائر فکر سخن کے پر سلتے
وہیں پہ عقل و خرد کا نیا ٹھکانا تھا
لہو کا رنگ چٹانوں کے آبشاروں میں
انہیں نشیب میں دریائے خوں بہانا تھا
قبائے سرخ سیہ بادلوں نے اوڑھی تھی
کسی کے جرم سے پردہ انہیں اٹھانا تھا
وہ ایک ہلکے تبسم کی کاٹ سہ نہ سکا
ستم کا وار بھی کس درجہ بزدلانہ تھا
تمام شورشیں سفاکیاں عروج پہ تھیں
بالآخر ان کو عدالت سے چھوٹ جانا تھا
دکاں لگائے ہوں ٹوٹے ہوئے کھلونے کی
کہ بھولتا نہیں بچپن بھی کیا زمانہ تھا
غزل
نہ سر چھپانے کو گھر تھا نہ آب و دانہ تھا
حیدر علی جعفری