EN हिंदी
فاضل جمیلی شیاری | شیح شیری

فاضل جمیلی شیر

18 شیر

اب کون جا کے صاحب منبر سے یہ کہے
کیوں خون پی رہا ہے ستم گر شراب پی

فاضل جمیلی




ہمارے کمرے میں اس کی یادیں نہیں ہیں فاضلؔ
کہیں کتابیں کہیں رسالے پڑے ہوئے ہیں

فاضل جمیلی




اک تعلق تھا جسے آگ لگا دی اس نے
اب مجھے دیکھ رہا ہے وہ دھواں ہوتے ہوئے

فاضل جمیلی




اس کاک ٹیل کا تو نشہ ہی کچھ اور ہے
غم کو خوشی کے ساتھ ملا کر شراب پی

فاضل جمیلی




میں اکثر کھو سا جاتا ہوں گلی کوچوں کے جنگل میں
مگر پھر بھی ترے گھر کی نشانی یاد رکھتا ہوں

فاضل جمیلی




میں اپنے آپ سے آگے نکلنے والا تھا
سو خود کو اپنی نظر سے گرا کے بیٹھ گیا

فاضل جمیلی




میں ہی اپنی قید میں تھا اور میں ہی ایک دن
کر کے اپنے آپ کو آزاد لے جانے لگا

فاضل جمیلی




میں اک تھکا ہوا انسان اور کیا کرتا
طرح طرح کے تصور خدا سے باندھ لیے

فاضل جمیلی




مرے لیے نہ رک سکے تو کیا ہوا
جہاں کہیں ٹھہر گئے ہو خوش رہو

فاضل جمیلی