گزرتی ہے جو دل پر وہ کہانی یاد رکھتا ہوں
میں ہر گل رنگ چہرے کو زبانی یاد رکھتا ہوں
میں اکثر کھو سا جاتا ہوں گلی کوچوں کے جنگل میں
مگر پھر بھی ترے گھر کی نشانی یاد رکھتا ہوں
مجھے اچھے برے سے کوئی نسبت ہے تو اتنی ہے
کہ ہر نا مہرباں کی مہربانی یاد رکھتا ہوں
کبھی جو زندگی کی بے ثباتی یاد آتی ہے
تو سب کچھ بھول جاتا ہوں جوانی یاد رکھتا ہوں
مجھے معلوم ہے کیسے بدل جاتی ہیں تاریخیں
اسی خاطر تو میں باتیں پرانی یاد رکھتا ہوں
غزل
گزرتی ہے جو دل پر وہ کہانی یاد رکھتا ہوں
فاضل جمیلی