خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا
میں تلملا کے اٹھا پھڑپھڑا کے بیٹھ گیا
کسی نے جام اچھالا بنام شام الم
کوئی ملال کی وحشت چھپا کے بیٹھ گیا
ملا نہ جب کوئی محفل میں ہم نشینی کو
میں اک خیال کے پہلو میں جا کے بیٹھ گیا
پرانے یار بھی آپس میں اب نہیں ملتے
نہ جانے کون کہاں دل لگا کے بیٹھ گیا
ملے بغیر بچھڑنے کو کیا کہا جائے
بس اک خلش تھی جسے میں نبھا کے بیٹھ گیا
میں اپنے آپ سے آگے نکلنے والا تھا
سو خود کو اپنی نظر سے گرا کے بیٹھ گیا
کسے خبر تھی نہ جائے گی دل کی ویرانی
میں آئینوں میں بہت سج سجا کے بیٹھ گیا
غزل
خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا
فاضل جمیلی