کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں
ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں
کہیں تو جھکنا پڑے گا نان جویں کی خاطر
نہ جانے کس کے کہاں نوالے پڑے ہوئے ہیں
وہ خوش بدن جس گلی سے گزرا تھا اس گلی میں
ہم آج بھی اپنا دل سنبھالے پڑے ہوئے ہیں
ہماری خاطر بھی فاتحہ ہو برائے بخشش
ہم آپ اپنے پہ خاک ڈالے پڑے ہوئے ہیں
شہید ہیں ہم ہمیں کبھی رفتگاں نہ سمجھو
نہ جانے کب سے اجل کو ٹالے پڑے ہوئے ہیں
کہو تو دے دیں ہم آج تم کو حساب مستی
کہ ہم نے جتنے بھی جام اچھالے پڑے ہوئے ہیں
ہماری آنکھوں میں جب سے اترا ہے چاند کوئی
ہماری آنکھوں کے گرد ہالے پڑے ہوئے ہیں
ابھی تو ہم نے یہ زندگی اس کے نام کی ہے
ابھی تو جاں کے کئی ازالے پڑے ہوئے ہیں
یقیں نہیں ہے خود اپنے ہونے کا ہم کو ورنہ
کئی مثالیں کئی حوالے پڑے ہوئے ہیں
ہمارے کمرے میں اس کی یادیں نہیں ہیں فاضلؔ
کہیں کتابیں کہیں رسالے پڑے ہوئے ہیں
غزل
کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں
فاضل جمیلی