EN हिंदी
زندگانی کو عدم آباد لے جانے لگا | شیح شیری
zindagani ko adam-abaad le jaane laga

غزل

زندگانی کو عدم آباد لے جانے لگا

فاضل جمیلی

;

زندگانی کو عدم آباد لے جانے لگا
ہر گزرتا دن کسی کی یاد لے جانے لگا

ایک محفل سے اٹھایا ہے دل ناشاد نے
ایک محفل میں دل ناشاد لے جانے لگا

کس طرف سے آ رہا ہے کارواں اسباب کا
کس طرف یہ خانماں برباد لے جانے لگا

اک ستارہ مل گیا تھا رات کی تمثیل میں
آسمانوں تک مری فریاد لے جانے لگا

میں ہی اپنی قید میں تھا اور میں ہی ایک دن
کر کے اپنے آپ کو آزاد لے جانے لگا