EN हिंदी
فارغ بخاری شیاری | شیح شیری

فارغ بخاری شیر

18 شیر

دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن
اندر سے مکان گر رہا ہے

فارغ بخاری




دو دریا بھی جب آپس میں ملتے ہیں
دونوں اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں

فارغ بخاری




ہم ایک فکر کے پیکر ہیں اک خیال کے پھول
ترا وجود نہیں ہے تو میرا سایا نہیں

فارغ بخاری




ہم سے انساں کی خجالت نہیں دیکھی جاتی
کم سوادوں کا بھرم ہم نے روا رکھا ہے

فارغ بخاری




ہزار ترک وفا کا خیال ہو لیکن
جو روبرو ہوں تو بڑھ کر گلے لگا لینا

فارغ بخاری




جلتے موسم میں کوئی فارغ نظر آتا نہیں
ڈوبتا جاتا ہے ہر اک پیڑ اپنی چھاؤں میں

فارغ بخاری




جتنے تھے تیرے مہکے ہوئے آنچلوں کے رنگ
سب تتلیوں نے اور دھنک نے اڑا لیے

فارغ بخاری




کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی
راہ میں فاصلے ہیں پہلے ہی

فارغ بخاری




کیا زمانہ ہے یہ کیا لوگ ہیں کیا دنیا ہے
جیسا چاہے کوئی ویسا نہیں رہنے دیتے

فارغ بخاری