EN हिंदी
وہ روشنی ہے کہاں جس کے بعد سایا نہیں | شیح شیری
wo raushni hai kahan jis ke baad saya nahin

غزل

وہ روشنی ہے کہاں جس کے بعد سایا نہیں

فارغ بخاری

;

وہ روشنی ہے کہاں جس کے بعد سایا نہیں
کسی نے آج تلک یہ سراغ پایا نہیں

کہاں سے لاؤں وہ دل جو ترا برا چاہے
عدوئے جاں ترا دکھ بھی کوئی پرایا نہیں

تری صباحت صد رنگ میں بکھر جاؤں
ابھی وہ لمحہ مری زندگی میں آیا نہیں

ترے وجود پہ انگڑائی بن کے ٹوٹا ہے
وہ نغمہ جو کسی مطرب نے گنگنایا نہیں

نئی نویلی زمینوں کی سوندھی خوشبو میں
وہ چاندنی ہے کہ جس میں کوئی نہایا نہیں

ہم ایک فکر کے پیکر ہیں اک خیال کے پھول
ترا وجود نہیں ہے تو میرا سایا نہیں

وہ باب جس میں توانائیوں کی خوشبو ہے
فسانہ ساز نے فارغؔ کبھی سنایا نہیں