تیری خاطر یہ فسوں ہم نے جگا رکھا ہے
ورنہ آرائش افکار میں کیا رکھا ہے
ہے ترا عکس ہی آئینۂ دل کی زینت
ایک تصویر سے البم کو سجا رکھا ہے
برگ صد چاک کا پردہ ہے شگفتہ گل سے
قہقہوں سے کئی زخموں کو چھپا رکھا ہے
اب نہ بھٹکیں گے مسافر نئی نسلوں کے کبھی
ہم نے راہوں میں لہو اپنا جلا رکھا ہے
ہم سے انساں کی خجالت نہیں دیکھی جاتی
کم سوادوں کا بھرم ہم نے روا رکھا ہے
کس قیامت کا ہے دیدار ترا وعدہ شکن
دل بے تاب نے اک حشر اٹھا رکھا ہے
کوئی مشکل نہیں پہچان ہماری فارغؔ
اپنی خوشبو کا سفر ہم نے جدا رکھا ہے
غزل
تیری خاطر یہ فسوں ہم نے جگا رکھا ہے
فارغ بخاری