دل کے گھاؤ جب آنکھوں میں آتے ہیں
کتنے ہی زخموں کے شہر بساتے ہیں
کرب کی ہاہا کار لیے جسموں میں ہم
جنگل جنگل صحرا صحرا جاتے ہیں
دو دریا بھی جب آپس میں ملتے ہیں
دونوں اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں
سوچوں کو لفظوں کی سزا دینے والے
سپنوں کے سچے ہونے سے گھبراتے ہیں
درد کا زندہ رہنا پیاس کا معجزہ ہے
دیوانے ہی یہ بن باس کماتے ہیں
تاریخوں میں گزرے ماضی کی صورت
اہل جنوں کے نقش پا مل جاتے ہیں
دکھ سکھ بھی کرتا ہے سر بھی پھوڑتا ہے
دیواروں سے فارغ کے سو ناتے ہیں
غزل
دل کے گھاؤ جب آنکھوں میں آتے ہیں
فارغ بخاری